عرصہ دراز سے فطری و قدرتی طریقہ علاج یعنی طب کے خلاف ایک مذموم پروپیگنڈہ مہم بڑے منظم طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔ جس میں ہمارا نام نہاد الیکٹرونک میڈیا بھی پیش پیش ہے کہ دیسی یا حکیمی ادویہ سےلوگوں کے گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ مجھ سے بغرض علاج رجوع کرنے والے اکثر لوگوں کا بھی یہی سوال ہوتا ہے۔ یہ وہی پرانا واحد الزام ہے جو حکماء پر لگاتے آرہے ہیں لیکن اس کاکوئی سائنٹیفک ثبوت ان کے پاس نہیں ہے۔
تو جناب پیش خدمت ہے ان ہی کی اسٹڈیز سے ان ہی کی کتابوں سے ان ہی کے مواد سے تھوڑا سا مواد، جو ان کے الزام کو نہ صرف غلط ثابت کرتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ گردے فیل کرنے میں ٹاپ پر ایلوپیتھی ادویات ہیں۔
انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مطابق دنیا میں گردے فیل ہونے کے ٪43 سے زائد کیسز کی وجہ شوگر ہے، جب کہ ٪26 سے زیادہ ہائی بلڈ پریشر ہے، باقی وجوہات میں کڈنی اسٹون کڈنی سسٹ اور یورولوجی کی دیگر انفیکشنز اور ادویات کا کردار ہے۔
کیا امریکی، یورپی اور دیگر ممالک کےلوگ بھی پاکستانی حکیموں سے علاج کرواتے ہیں جو وہاں اس قدر گردوں کےمریض ہیں؟
آپ صرف اتنا کریں کہ گوگل پر جائیں کسی ایک دوا کا یا ادویات کے کسی گروپ کا نام لکھیں اور اس کے سائیڈ ایفیکٹس چیک کریں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
گلی محلہ عام میں بکنے والی درد کش ادویات جنہیں NSAID نان اسٹیرائڈل اینٹی انفلیمیٹری ڈرگز کہتے ہیں ان کے گردوں پر اثرات پڑھ لیں تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔
اس کے بعد اندھا دھند استعمال کروائی جانے والی اینٹی بائیوٹکس کا نمبر آتا ہے۔ ان کے کئی گروپس ہیں۔ جو سب کے سب گردوں کے لیے انتہائی مضر ہیں جن میں ٹاپ پر ہے ایمائینو گلائکو سائیڈز، جن میں نومولود کو دی جانے والی دوا ایمیکاسن کے علاوہ بھی بہت سی ادویات ہیں جن میں جنٹامائی سن، کینامائی سن شامل ہیں، جو گردوں کے لیے شدید مضر ہیں اور یہ ہم نہیں کہتے ان کی اپنی اسٹڈیز کہتی ہیں۔
آگے ہے کینولون گروپ جس کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا ہے سپروفلاکساسین اس کا نام لکھیں اس کے مضر اثرات پڑھیں سچ سامنے آجائے گا۔
اس کے بعد آتی ہیں ساری عمر کھائی جانے والی بلڈ پریشر کی ادویات جن میں سب سے پہلے جو دوائیں تجویز کی جاتی ہیں وہ ڈائی یوریٹکس ہیں یعنی پیشاب آور، یہ براہ راست اثر ہی گردوں پر کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ اینٹی ہائپر ٹینسو ادویات میں کئی قسم کی ادویات ہیں جن میں ایک قسم ہے ایس ان ہیبیٹرز جو گردوں کے لیے شدید مضرہے۔
یہ سلسلہ شیطان کی آنت سے بھی لمبا ہے اور ایک پوسٹ اس کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔
سب کو پتہ ہے ایک دوا مارکیٹ میں آتی ہے اس سے اربوں کمائے جاتے ہیں، جب یورپ میں اس کے نقصانات سامنے آتے ہیں تو اس دوا کو بند کر کے نئی لانچ کر دی جاتی ہے اور اس کے محفوظ ہونے کا ڈھول پیٹا جاتا ہے، پھر چند سال بعد یہی دوا مضر ہو جاتی ہے تو نئی آجاتی ہے۔
یورپ میں ان دواؤں کے بنانے والے اداروں کو ہر سال اربوں روپے کے ہرجانے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
الزامات لگانے والوں کے متعلق بے تحاشا مواد موجود ہے۔ صفحات کے صفحات سیاہ ہو جائیں۔
المختصر یہ کہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن اور دیگر صوبوں میں ہیلتھ کیئر کمیشنز کسی حکیم کی وجہ سے نہیں بنے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک برطانیہ پلٹ پاکستانی کی بچی کے ہاتھ پر معمولی سا انفیکشن ہوا، وہ بچی کو لاہور کے ایک مشہور اور مہنگے ترین ہسپتال لے کر گئے جہاں ایک ڈاکٹر صاحب نے اسے بغیر ٹسٹ ڈوز دئیے اینٹی بائیوٹک انجکشن آئی وی لگایا جس سے اینا فائیلکسز ہوا بچی فوت ہو گئی۔ بچی کا باپ کورٹ چلا گیا تو سسٹم ریگولیٹ کرنے کے لیےتمام صوبوں میں ہیلتھ کیئر کمیشنز عدالتی حکم پر بنے ڈاکٹروں کی غلطیوں کی وجہ سے۔
کیا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے لی گئی دوا سے سینکڑوں مریضوں کی اموات بھول گئے ہیں؟
روازنہ ہسپتالوں میں غیر ذمہ داری کے نتیجے سے ہونے والی اموات تو کسی گنتی شمار میں نہیں ہوتیں؟
کیونکہ وہاں آپ پردہ ڈال لیتے ہیں اپنی کوتاہیوں پر۔
گورنمنٹ ذرا رولز فالو کرنے کے لیے سختی کرتی ہے تو عوام کے ٹیکس سے لاکھوں روپے ماہوار وصول کرنے والے یہ مسیحا ہر چوتھے دن اسٹرائک پر ہوتے ہیں۔
میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ ان کے کارناموں کی لسٹ شیطان کی آنت سے کہیں لمبی ہے۔
چپے چپے پر کھلے میڈیکل اسٹور اس ٹریلین ڈالر دھندے کا ثبوت ہیں،کہ یہ سسٹم لوگوں کو شفایابی کی بجائے تاحیات دوا پر لگانے کا ہے۔
دنیا میں اسلحے کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دوسرا بڑا بزنس یہ ہے کہ پہلے بیماریاں پیدا کرو پھر دوائیں بیچو۔ جب یہ بزنس ہے تو بزنس میں گاہک بنائے جاتے ہیں۔
تمام ریسرچ باہر کی ہے ایک دوا ایک ملٹی نیشنل ادارہ بناتا ہے انہیں کہتا ہے کہ اس کی یہ یہ افادیت ہے یہ دھڑا دھڑ لکھتے جاتے ہیں، کچھ عرصہ بعد اس کے نقصانات کی وجہ سے اس پر بین لگ جاتا ہے تو یہ کچھ اور لکھنا شروع۔
سوچنا یہ ہے کہ یہ ہیں کیا !!! ملٹی نیشنل مافیا کے ہاتھوں میں کھلونے؟
آج باہر سے سالٹ آنا بند ہو جائے تو یہ سب وہ کھلونے ہوں گے جنکی چابی ختم ہوگئی ہو۔
گزارش ہے کہ اپنے کام سے کام رکھیے یا کوئی سائینٹیفک ثبوت لے آئیے۔
والسارٹن ایک ایلوپیتھی دوا ہے۔ جو بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کے لیے روزانہ کھائی جاتی ہے اور پاکستان میں لاکھوں لوگ روزانہ اسے کھاتے تھے. کئی کمپنیاں یہ دوا مارکیٹ کر رہی تھیں۔ جن میں سے کم وبیش بارہ کمپنیاں اس دوا کا سالٹ چائنہ کی ایک کمپنی سے لیتی تھیں اور اسے گولی کی شکل میں مارکیٹ کرتی تھیں. امریکہ یا شاید کسی یورپی ملک میں یہ معلوم ہوا کہ چائنہ کی اس کمپنی کے والسارٹن نامی سالٹ میں کچھ امپیورٹریز پائی جاتی ہیں جو کہ کینسر پیدا کرتی ہیں. پوری دنیا میں شور مچ گیا اور چائنہ کی اس کمپنی کے سالٹ پر پابندی لگ گئی۔
یوں ہمارے ڈریپ کی آنکھ بھی کھل گئی اور اس کمپنی سے سالٹ لینے والی کمپنیوں کو کہا گیا کہ اپنی دوا مارکیٹ سے فوری واپس لیں۔
یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
پاکستان میں فارماسیویٹیکل کے لیے کوئی قانون نہیں کہ دوا بنانے سے پہلے لیے گئے میٹریل کی کوالٹی امپیورٹی چیک کریں؟
اگر قانون ہے تو چیک کیوں نہیں ہو رہا۔۔۔؟
ادارے کیوں سوتے رہے۔۔۔؟
پھر یہ کام کسی ایک کمپنی کا نہیں۔ سب اسے مارکیٹ کرتی رہیں. ڈریپ سوتا رہا۔
پھر صرف مارکیٹ سے واپس اٹھانے کی کال دی گئی۔ کسی کمپنی کے خلاف اس سنگین جرم پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
کتنے لوگوں کو اس سے کینسر ہوا کتنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے یا اس مصیبت میں مبتلا ہیں کوئی ڈیٹا نہیں۔ کوئی ذمہ دار ہی نہیں۔
آگے آتے ہیں ڈاکٹر صاحبان کی طرف جو لٹھ لے کر حکیموں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں لیکن اپنی حثیت دوا ساز ادارے کے سیل مین سے زیادہ رائی جتنی نہیں۔
اس کیس نے ان کی قابلیت کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوڑ دی ہے. یہ سال ہا سال سے مریضوں کو والسارٹن لکھ لکھ کر دیتے رہے لیکن اس سے پیدا شدہ سائیڈ ایفیکٹس کو ان میں سے کوئی ایک بھی نوٹ نہ کر سکا۔
باہر کے ممالک میں پتہ چلا کہ یہ کینسر پیدا کرتی ہے۔ وہاں پابندی لگی تو یہاں لگا دی۔ یہ کسی قابل ہوتے تو یہ جو ہزاروں ڈاکٹر لاکھوں مریضوں کو والسارٹن لکھ کر دے رہے تھے ان میں سے کوئی ایک، کوئی ایک ڈاکٹر اس دوا کے سائیڈ ایفیکٹس کو نوٹ کر لیتا لیکن کوئی نہ کر سکا۔
ان کی معلومات دوا کے متعلق صرف وہی ہوتی ہیں جو کمپنی انہیں بتا دیتی ہے اس سے آگے، کمپنی کے دئیے گئے تحائف ڈیل پیکج اور گاڑی ہوتے ہیں بس
اور ہر وقت رولا حکیموں کے خلاف
مزے کی بات یہ کہ اب تو ان کی اکثریت ہربل ادویات لکھنے لگی ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ ہربل بہترین طریقہ علاج ہے۔ یہ ہربل کے نہیں حکیم کے خلاف ہیں تاکہ حکیم کو تنگ کر کر کے ان کے خلاف کاروائیاں کر کے انہیں بدنام کر کے فیلڈ سے آؤٹ کر کے اس فیلڈ پر قبضہ کر لیا جائے۔ اس کا ثبوت ہیں وہ ہربل ڈویژن جو اکثر فارما سیوٹیکل کمپنیاں بنا چکی ہیں۔
اب راستے کی دیوار، حکیم کو ہٹانے کی مہم زوروشور سے جاری ہے۔ جس کے لیے انہیں ہربل دواساز اداروں کے تنخواہ دار چند بکاؤ طبیبوں کی معاونت بھی حاصل ہے۔
بات کافی لمبی ہو گئی۔ اس موقع پر مجھے قبلہ انور مسعود صاحب کی ایک نظم یاد آرہی ہے جو ایلوپیتھی ادویہ کے سائیڈ ایفکٹس کھول کر بیان کرتی ہے:
سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے
ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر کی صورت
دل تنگ و پریشان بھی ہو سکتا ہے اس سے
ہو سکتی ہے کچھ ثقل سماعت کی شکایت
بیکار کوئی کان بھی ہو سکتا ہے اس سے
ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں
ہاں آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اس سے
پڑ سکتی ہے کچھ جلد خراشی کی ضرورت
خارش کا کچھ امکان بھی ہو سکتا ہے اس سے
ہو سکتی ہیں یادیں بھی ذرا اس سے متاثر
معمولی سا نسیان بھی ہو سکتا ہے اس سے
ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی
گردہ کوئی ویران بھی ہو سکتا ہے اس سے
ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے زیادہ
پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے
اسی پر پوسٹ کلوز کرتے ہیں۔