شوگر اور انٹرنیٹ پر گردش کرنے والے نسخوں سے علاج

انٹرنیٹ پر کئی اتائی اور ان کی دیکھا دیکھی عامۃ الناس بھی نسخہ بازی کر کے اپنی جھوٹی شہرت چاہتے ہیں کہ کسی طرح ہماری مشہوری ہو جائے اور ہم بھی حکیم، طبیب یا معالج کہلائیں۔ یہ لوگ اپنی دکانداری چمکانے کے لیے جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے فیس بُک اور وٹس ایپ پر گروپس بنا رکھے ہیں اور گروپس ایڈمن کہلانے کے شوق میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور کچھ طبیب حضرات اپنے آپ کو طب کا استاد کہلوانے کے لیے نسخے پر نسخہ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ جب ان کا مَطَب (کلینک) دیکھو تو فارغ بیٹھے مکھیاں مار رہے ہوتے ہیں۔

جاری تحریر میں شوگر کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے کچھ نکات سمجھانے کی سعی کروں گا جن سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ لوگ کس حد تک سچے ہیں اور کیا یہ حکیم کہلانے کے حقدار بھی ہیں؟ نہ کسی کو مرض کی پتھالوجی کا علم ہے اور نہ ہی خواص الادویہ کا علم ہے۔ یاد رکھیے! کوئی بھی دواء مریض کے مزاج کے مطابق ہی صحت کی طرف لاتی ہے۔ اگر آنکھیں بند کر کے مریض کو دواء دے دی جائے تو فوائد کی بجائے اس کے نقصانات زیادہ سامنے آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے طب و حکمت اور ان کے حقیقی حاملین کو بدنام کر رکھا ہے۔ یہ لوگ سنے سنائے نسخوں کو مجرب خیال کرتے ہوئے عوام کو اندھا دھند بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں سے بچنا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ کسی کے کہنے پر مستند اور ماہر معالج سے مشورہ کیے بغیر شوگر کے لیے کوئی دواء نہیں کھانی چاہیے۔ ہم غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک شوگر کے لیے مختلف مزاج رکھنے والی کتنی دوائیں ان جھوٹی شہرت حاصل کرنے والوں نے ایجاد کر ڈالیں۔ شوگر کا مرض “صفراء/گرمی کی تحریک” سے پیدا ہوتا ہے لیکن ان لوگوں کے نزدیک مزاج کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ خواہ مریض ہسپتال پہنچ جائے، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

اس قدرے طویل مضمون میں چند ادویہ کو ہی زیر بحث لایا گیا ہے لیکن آپ انٹرنیٹ/ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو سو، دو سو نسخہ بیان کرنے والے افراد اپنا الگ الگ راگ الاپ رہے ہیں۔ کسی ایک دواء کا دوسری دواء کے ساتھ مزاج نہیں ملتا۔ ان ٹوٹکوں اور چٹکلوں سے کچھ مریضوں کو عارضی طور پر محض چند روز کے لیے شوگر میں کمی بھی محسوس ہوئی لیکن وہی دواء (ٹوٹکا) استعمال کرتے کرتے شوگر ایسی بڑھی کہ نوبت انسولین تک پہنچ گئی۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے ایسی غلطیاں نہیں کرنی ہیں۔

شوگر کا مریض عموماً یہ سمجھتا ہے کہ اسے صرف شوگر ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ایک ماہر معالج ہی بتا سکتا ہے کہ اس کے جسم کے کس حصہ میں کیا خرابی پیدا ہو چکی ہے۔ اگر کوئی پہلے سے ہی کولیسٹرول کا مریض ہوا تو ان ٹوٹکوں کے استعمال سے اپنی جان گنوا بیٹھے گا۔ کوئی جگر کا مریض ہوا تو اپنے ہاتھوں اپنے مرض میں اضافہ کر لے گا اور نوبت معاذ اللّٰہ کینسر تک پہنچ سکتی ہے۔ لہٰذا اگر صحت چاہتے ہیں تو کسی ماہر معالج سے ہی علاج کروانا چاہیے ورنہ پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔

تفصیلاً بات شروع کرنے پہلے اس نظریہ کی تردید کرنا لازم سمجھتا ہوں جو عوام الناس میں مشہور ہے ” دیسی دواء اگر فائدہ نہ دے تو نقصان بھی نہیں دیتی۔” حتٰی کہ بعض معالجین تک یہ بات کہہ رہے ہوتے ہیں کہ “جناب یہ دیسی دواء ہے اس کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں۔” میں دیسی طب وحکمت کے شعبہ سے وابستہ ہونے کے باوجود ڈنکے کی چوٹ پر علی الاعلان یہ بات کہتا ہوں کہ مذکورہ دونوں باتیں یا نظریات بے بنیاد، جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہیں۔ ہر دواء کا اپنا اثر (ایفیکٹ) بھی ہوتا ہے اور مابعد اثر یا ضمنی اثر (سائیڈ ایفیکٹ) بھی ہوتا ہے۔ آئندہ کے لیے یہ بات اپنے قلب و ذہن میں بٹھا لیں۔

اب ہم انٹرنیٹ پر گردش کرنے والے شوگر کے نام نہاد شافی نسخوں پر طبی نکتۂ نظر سے بحث شروع کرتے ہیں۔

  1. کلونجی والے نسخہ کی حقیقت
    کوئی کہتا ہے کہ “صبح و شام نہار منہ کلونجی کے چھ دانے کھاؤ! یہ ہر قسم کی شوگر کے لیے مفید ہے اور کئی دیگر بیماریوں کے لیے بھی نفع بخش ہے۔”
    فوائد تو اب کھانے والا ہی بتائے گا۔ اب یہ دیکھیے کہ کلونجی دوسرے درجے میں گرم خشک ہے۔ کیا یہ جگر کی سوزش دور کرے گی یا اور بڑھا دے گی؟
  2. کریلے والے نسخہ کی حقیقت
    کوئی کہتا ہے کہ “کریلے کا پانی نکال کر ایک ایک گلاس صبح و شام پیو! ہر قسم کی شوگر دور ہو کر طاقت کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں اور دوبارہ کبھی شوگر نہیں ہو گی۔ کریلا وہ واحد دواء ہے جو خون کو کڑوا کرتی ہے۔ اس لیے شوگر نہیں رہتی۔”
    اب بتائیں! کیا کریلے تر مزاج کے حامل ہیں جو جگر کی سوزش تحلیل کریں گے اور شوگر نارمل ہو جائے گی؟ کریلا شدید گرم خشک ہے۔ اس کا پانی نکال کر استعمال کرنے سے بھی گرمی یعنی سوزشِ جگر ہی پیدا ہو گی۔
  3. لسوڑھے والے نسخہ کی حقیقت
    کسی نے کہا کہ ” لسوڑھے کے آٹھ پتے رات کو پانی میں بھگو دو اور صبح نہار منہ پانی میں سے یہ پتے نکال کر پانی پی لو۔ آٹھ دن میں شوگر نارمل ہو جائے گی۔”
    اب سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ مانا لسوڑھے کے پتوں کا پانی بلڈ شوگر میں کمی کرے گا کیونکہ ان کا مزاج “سرد تر” ہے۔ انہیں جگر کی سوزش اتارنی چاہیے۔ لیکن آٹھ روز میں نہیں بلکہ مستقل استعمال کرنے سے ابتدائی درجے کی شوگر کو فائدہ کریں گے۔ وہ بھی عارضی فائدہ، جب چھوڑیں گے تو پھر ویسے ہی۔ ایسا کیوں؟ اس لیے کہ آج کل ہمارے کھانے کی کوئی سبزی کوئی پھل حتٰی کہ پانی بھی دواؤں اور زہروں کے اثرات سے بچا ہوا نہیں ہے۔ سب کیمیکل کے کارخانے ہیں۔ ذرا غور تو کیجیے! کیا ہر چیز کھاد سپرے اور کیڑے مار ادویہ سے تیار نہیں کی جاتی ؟ تو لسوڑھے کے پتے بیچارے کیا کریں گے۔
  4. کڑوے جو اور شوگر کا علاج
    ایک شخص نے بڑا دعوٰی کیا کہ “میں تو کڑوے جو لیتا ہوں۔ میری شوگر نارمل رہتی ہے۔” پوچھا بلڈ پریشر کے بارے میں بتاؤ! تو کن اکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ” ہاں یہ بڑھنے لگا ہے۔ اس کے لیے گولی لیتا ہوں۔” پوچھا کیا کڑوے جو کھانے سے پہلے بھی بلڈ پریشر بڑھتا تھا؟ تو سوچ کر کہنے لگا ” نہیں پہلے بلڈ پریشر کبھی نہیں ہوا۔” توجہ دلائی کہ کڑوے جو کا مزاج “گرم تر” ہے۔ یہ شوگر کو تھوڑا سا کم تو کریں گے لیکن جیسے ہی چھوڑو گے پھر ویسے ہی بڑھی ہوئی ملے گی۔ کہنے لگا ” ایسا ہی ہے۔ جب دو چار روز انہیں چھوڑ دوں تو شوگر پھر بڑھ جاتی ہے۔”
    کڑوے جو کو اندر جو تلخ بھی کہتے ہیں۔ ان کا مزاج “گرم تر” ہے۔ تین حصے گرم اور ایک حصہ تر ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ہم ایک حصہ تری کو ایک حصہ گرمی سے نیوٹرالائز کرتے ہوئے منہا کر دیں تب بھی دو حصہ گرمی کے بچتے ہیں جو جگر کی سوزش کو بدستور قائم رکھے گا دور نہیں کر سکے گا۔ اس وجہ سے یہ نسخہ بھی فیل ہو گیا۔
  5. بھنڈی اور شوگر کا علاج
    ایک شخص کا دعوٰی ہے کہ “بھنڈی کے تین ٹکڑے رات کو ایک پیالی پانی میں بھگو دو اور صبح نہار منہ یہ پانی پی لو! شوگر کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دواء نہیں ہے۔ صرف دو ہفتے یہ کر لو! پھر سب کچھ کھاؤ!”
    کیا ایسا ہے؟ مانا بھنڈی “تر سرد” ہے اسے سوزش اتارنا چاہیے! لیکن جب اس طرح کر کے دیکھو تو شوگر مزید بڑھ جاتی ہے۔ حالانکہ بھنڈی کو سوزش اتارنا چاہیے تھی لیکن نہیں اتری۔ کس لیے؟ اس لیے کہ یہ معدہ کی استطاعت سے زیادہ ثقیل ثابت ہوئی، ہضم نہ ہو سکی اور آپ انسولین کے فعل کے بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے کہ اس نے گلوکوز کو سیلز کے اندر دھکیل کر جذب کرانا ہوتا ہے۔ بھنڈی کے استعمال سے انسولین تو بنی لیکن ضعف امعاء (آنتوں کی کمزوری) کی وجہ سے جذب ہی نہیں ہوئی اور شوگر کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔ تجربہ فیل ہو گیا۔ لیکن بلند بانگ دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ ہاں البتہ ایک کام ہوا کہ نسخہ بتانے والے کا نام انٹرنیٹ/ سوشل میڈیا کی دنیا میں آ گیا۔
  6. پنیر ڈوڈی اور شوگر
    ایک شخص نے کہا کہ ” میں پنیر ڈوڈی تین گرام کی مقدار میں رات کو پانی میں بھگو دیتا ہوں۔ صبح نہار منہ یہ پانی چھان کر پی لیتا ہوں۔ اس عمل سے میری شوگر کم ہو گئی ہے۔” کہا لیکن بلڈ پریشر بڑھ گیا ہو گا۔ کہنے لگا ” ہاں بلڈ پریشر بڑھنے لگا ہے۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے اور سُن رہنے لگے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے۔ یہ نسخہ راہ چلتے ایک بابے نے بتایا تھا۔”
    میں نے اسے بتایا کہ آپ کا جگر چربی سے بھرا پڑا ہے۔ اس کی نالیاں بلاک ہو گئی ہیں۔ پنیر ڈوڈی “سرد خشک” ہے۔ یہ اس چربی کومزید گاڑھا کر رہی ہے اور یہ خون میں شامل ہو کر اس میں غلظت (گاڑھا پن) کا سبب بن رہی ہے۔ اسے فوراً چھوڑ دو اور ادرک کا قہوہ پیا کرو۔ دو تین ماہ کر لو۔ بلڈ پریشر کے ساتھ شوگر بھی نارمل ہو جائے گی۔
    سوال یہ ہے کہ سرد دوا نے بھی سوزش نہیں اتاری، کیوں؟ اس لیے کہ اس شخص کا جگر پہلے ہی فیٹی (چربیلا) تھا، خون میں ٹرائی گلیسرائیڈ بڑھا ہوا تھا۔ سرد دواء کے خیساندے سے خون اور بھی غلیظ ہو گیا جس سے دل پر دباؤ بڑھ گیا اور بلڈ پریشر ہائی رہنے لگا۔
  7. بادام ،تخم کاسنی اور کالی مرچ والا نسخہ ناکام کیوں؟
    ایک شخص نے کہا کہ “مغز بادام 100 گرام، تخم کاسنی 100 گرام، کالی مرچ 25 گرام پیس کر ایک چمچ صبح شام خالی پیٹ پانی سے پھانک لیا کرو اور جو مرضی چاہے کھاؤ پیو شوگر نہیں بڑھے گی۔ اور یہ نسخہ مستقل کھاتے رہنے سے جگر ٹھیک ہو جاتا ہے اور شوگر بھی نارمل ہو جاتی ہے۔”
    غور کریں! کاسنی “تر سرد” ، مغز بادام اور کالی مرچ “گرم تر” ہیں۔ یہ نسخہ کھانے والے مریض نے بتایا کہ “چھ ماہ سے کھا رہا ہوں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جسم سست رہنے لگا ہے۔ بھوک بند ہو گئی ہے۔ شروع میں اس نسخہ سے فائدہ ہوا تھا لیکن اب یہ نسخہ جواب دے گیا ہے۔ جس نے بتایا تھا اس نے کہا تھا کہ ساری عمر دوبارہ شوگر نہیں ہو گی۔ لیکن اب شوگر نے پھر سر اٹھا لیا ہے۔”
    میرے نزدیک یہ نسخہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ اس نسخہ نے جگر کی سوزش تو کم کی ہو گی لیکن اجزاء بتاتے ہیں کہ اس نسخہ نے ضعفِ ہضم پیدا کیا اور آنتوں میں انسولین کے جذب کا عمل بھی سست ہو گیا۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھلے ایک نسخہ شوگر نارمل کرتا ہے لیکن جسم کے باقی اعضاء پر کیا کیا ما بعد اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) چھوڑے گا اس بات کا تو نسخہ بتانے والے کو بھی علم نہیں۔ قطع نظر اس سے نسخہ بتانے والے نے صرف اپنے نام کی جھوٹی شہرت کے لیے بلند بانگ دعوٰی کرتے ہوئے یہ نسخہ انٹرنیٹ/ سوشل میڈیا پر نشر کر دیا کہ چلو اور کچھ نہ سہی میرا نام تو ہو گا۔ لوگ مجھ سے مشورہ تو کریں گے۔ حکیم جی تو کہیں گے۔
    میں کہتا ہوں کہ کسی بھی شوگر کے مریض کی ایک ہی دواء مستقل نہیں ہوتی۔ جسم کے ہر ہر عضو کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ آیا کہ تمام اعضاء رئیسہ و شریفہ اپنے افعال درست انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پہلے ان کے افعال درست کرنا ہوں گے۔
  8. میتھی دانہ والے نسخہ کی ناکامیاں
    ایک صاحب نے میتھی دانہ کو شوگر کے لیے اکسیر لکھ مارا کہ “یہ شوگر کی آخری دواء ہے۔ چند روز میں ہی فرق صاف ظاہر ہو گا۔”
    اب قباحت یہ ہے کہ جب مریض نے جا کر پنساری سے میتھی دانہ طلب کیا تو اس عاقبت نا اندیش نے میتھرے دے دئیے۔ مریض کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا لینے آیا ہے اور اسے کیا دیا گیا ہے۔ دواء کے خواص کا ظاہر ہونا تو بعد کی بات اس کے اصل ہونے پر بھی شک ہو گیا۔ میتھی دانہ دوسرے درجے میں “گرم خشک” اور میتھرے پہلے درجے میں “گرم تر” ہیں۔
    اب بتائیں کیا شوگر ٹھیک ہوئی؟ بتانے والے نے تو بتا دیا۔ اب مریض بھلے بلڈ پریشر کا مریض ہو ، سٹینوسز کا مریض ہو، تیزابیت اور قبض میں مبتلا ہو اس کی بلا سے، اس نے تو نسخہ جھاڑ کر اپنا نام معالجین کی فہرست میں لکھوا لیا۔
  9. تخم سرس، شوگر اور ناکامیاں
    ایک شخص نے تخم سرس کو شوگر کے لیے اکسیری دواء کہہ دیا۔ حالانکہ تخم سرس دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ بھورے (براؤن) اور سیاہ۔ دونوں کے خواص و افعال میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ عام پائے جانے والے تخم سرس مزاجاً “سرد تر” ہیں اور مغلظ بھی ہیں۔ اگر کسی کا ٹرائی گلیسرائیڈ پہلے سے ہی بڑھا ہوا ہو تو اسے نہایت نقصان دیتے ہیں۔ لیکن بتانے والے کا نام تو انٹرنیٹ کے ذریعے مشہور ہوا نا، اسے اور کیا چاہیے؟
  10. حنظل ( تُمہ/کوڑ تُمہ/اندرائن ) والے نسخہ کی ناکامیاں
    ایک شخص نے حنظل/ تُمہ کو شوگر کی آخری دواء کہہ دیا کہ “اس کے بیج پیس کر کیپسول بھر لو۔ ایک صبح اور ایک شام میں کھاؤ! شوگر ایسے غائب ہو گی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔”
    مریض تو دیوانہ ہوتا ہے وہ پنساری کے پاس گیا۔ تخم حنظل کا جھٹ سے پاؤڈر تیار کیا اور کیپسول بھر کر کھا لیا۔ صبح پتہ چلا پیٹ میں بل پڑ رہے ہیں۔ سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ پھر سے دواء کھا لی اور تھوڑی دیر میں اس زور سے بل پڑنے لگے کہ جان نکل گئی اور واش روم کے پھیرے شروع ہو گئے۔ آخر کار مروڑ آنے لگے۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو معالج کی طرف بھاگے۔
  11. آم کے خشک پتوں والے نسخہ کی حقیقت
    کوئی کہتا ہے کہ ” آم کے پتے سائے میں خشک کر کے سفوف بنا لو۔ ایک چائے والا چمچ صبح و شام پانی سے لو۔ ایک ہفتے میں ہر قسم کی شوگر ختم۔”
    اب دیکھیں! آم کے پتے “خشک سرد” مزاج رکھتے ہیں۔ یہ کس تھیوری کس قانون اور قاعدے کے تحت شوگر کو ختم کریں گے؟ کیا یہ جگر کی سوزش اتاریں گے یا وہاں فائبروسس کا سبب بنیں گے؟ ذمہ دار کون ہے؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔
  12. گارڈینیا والے نسخہ کی حقیقت
    ایک نے کہا کہ ” گارڈینیا (باغیچوں کی باڑ) کے اڑھائی پتے صبح و شام خالی پیٹ کھا لو! ایک ماہ میں شوگر نارمل ہو جائے گی۔”
    اب دیکھیے گارڈینیا ” گرم خشک” دوسرے درجہ میں ہے۔ کیا یہ جگر کی سوزش اتارے گا یا بڑھائے گا؟ 

محترم قارئین آج کل شوگر سیریز چل رہی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کے سامنے بارہا یہ بات رکھ چکا ہوں کہ شوگر معدہ و جگر کی خرابی سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ اس کا علاج ٹوٹکوں ، چٹکلوں اور انٹرنیٹ پر ہرکس و ناکس کے بتائے ہوئے نسخوں اور کڑوی کسیلی غذاؤں اور دواؤں سے کرنے کے درپے ہیں تو سخت غلطی پر ہیں۔ اس طرح شوگر قیامت تک ٹھیک نہیں ہو گی۔ اس کے علاج کےلیے نظام ہضم/ میٹابولزم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اصلاح معدہ اور جگر کی سوزش اتارنا اس کا کامیاب علاج ہے۔ خود علاجی سے بچیں اور ماہر کوالیفائیڈ طبیب کے مشورہ سے تجویز کردہ دواء اور غذا کھائیں! منع کردہ غذاؤں سے پرہیز کریں اور روزانہ تین کلومیٹر کم از کم سیر/ واک کریں اور صحت مند زندگی گزاریں۔ شوگر کے حوالے سے آگہی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آپ سب کی پرخلوص دعاؤں کا طالب ہوں۔

خادم خلق و فن
حکیم فاروق سومرو 🙏
۲۸ جولائی ۲۰۲۲ء

 

Shopping Cart
Scroll to Top